صدام حسین کو پھانسی
مشرقِ وسطیٰ کے تعلق سے جن
قارئین کو ناچیز کی نگارشات، بالخصوص عربی زبان میں
پڑھنے کا موقع ملاہوگا، وہ اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ عالم اسلام اور بہ طور
خاص عالمِ عربی کو اپنا مکمل غلام بنالینے کے لیے امریکہ
کی دور رس سازشوں کے تانے بانے کی شکل اختیار کرلینے والے
قائدین و حکام کو یہ راقم ہمیشہ مُشَخَّصْ کرتا رہا ہے۔
اِسی تناظر میں جنگِ خلیج اوّل کے موقع پر راقم نے صدام حسین
کے حوالے سے دسیوں دراز نفس مضامین لکھے جن میں خطہٴ خلیج
میں امریکہ کے عسکری ارتکاز کی خطرناکی اوراس کے
دور رس مضمرات پر مفصل اور مدلل گفتگو کی گئی تھی۔
کمالِ چالاکی سے امریکہ جو مکمل طور
پر اِس وقت موساد اور صہیونیت کے اِس طرح زیرنگیں ہے کہ
ماضی میں اِس کی نظیر نہیں ملتی مسلم ملکوں
کے جن حکمرانوں کو اپنے ”کارندے“ کے طور پر منتخب کرتا ہے، اُن میں بے شمار
”خوبیوں“ کے ساتھ ساتھ، اِس ”اہم خوبی“ کو ضرور پیشِ نظر رکھتا
ہے کہ اُن کے کسی رویّے سے اُمّتِ مسلمہ کو آخرتک یہ محسوس کرنا
مشکل؛ بلکہ ناممکن ہوکہ یہ صورت و شکل سے مسلمان اور عربی؛ لیکن
باطن اور حقیقت کے اعتبار سے، امریکی یا مغربی ہیں۔
اسکے برخلاف، اُن کے بہت سارے برتاؤ سے یہ محسوس ہوتا ہو کہ یہ ”شیرِخدا“
”مجاہدِاعظم“ قومِ مسلم کے واحد نجات دہندہ اور اسرائیل اور بالآخر امریکہ
کو دریابرد کردینے یا کسی اور طریقے سے حرفِ غلط کی
طرح مٹادینے کی بھرپور صلاحیت کے حامل اور اِس حوالے سے پکے
اِرادے اور سچے جذبات سے بہرہ ور ہیں!۔
اِسلام اور مسلمانوں کے
خلاف عالمِ عربی میں اور بیرونِ عالم عربی ، جتنی
سازشیں روبہ عمل لائی گئیں اور لائی جارہی ہیں،
اُن میں سے بیش تر اِنھی حکمرانوں کے ذریعے برپا کی
گئیں اور کی جارہی ہیں۔ بعض دفعہ تو خود اِن
حکمرانوں کو بھی پتہ نہیں ہوتا کہ انھیں کوئی استعمال
کررہا ہے اور قوم و عقیدئہ ووطن کے خلاف اُن سے بھرپور طور پر کام لیا
جارہا ہے۔ اگر کبھی انھیں اِس کا اِحساس ہوتا ہے تو پیچھے
کی طرف لوٹنے اور تلافیِ مافات کرنے کا وقت نکل چکا ہوتا ہے؛ کیوں
کہ وہ مجبور و بے بس ہوچکے ہوتے ہیں اور اُن کے لیے اپنے ارادے سے کچھ
کرنا یا کہنا خارج از اِمکان ہوچکا ہوتا ہے۔
ہاں کسی وقت شواذّ
کے درجے میں یہ بھی ہوتا ہے کہ کارندہ حکمرانوں کو شروع سے ہی
اپنی کارندگی کا علم ہوتا ہے اور وہ اِس ”منصب“ پر فائز کیے
جانے پر بہت خوش ہوتے ہیں اوراُس وقت تک حالات کی ”جنّت ریزی“
سے خوب خوب لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں، جب تک ”ہنی مون“ Honeymoon کے دن نہیں گزرجاتے اور کارندگی کے
نتائجِ بد نکلنے کے دن نہیں آتے اور قوم ووطن اور خود اُنھیں اُن کے
تلخ پھلوں کو نہ چاہتے ہوے کھانے پر مجبور نہیں ہونا پڑتا۔ جب یہ
وقتِ بد آجاتا ہے، تو پانی سر سے اونچا ہوچکا ہوتا ہے اور وقت کا بے رحم
ہاتھ ان کی گردنوں تک پہنچ کے رہتا ہے، پھر ”گیہوں“ کے ساتھ ”گھُن“ بھی
پس جاتاہے کہ سازش کنندوں کی طرف سے روزِ اوّل سے ہی ”گھن‘ کو بھی
پیسنے کا ارادہ کیاگیا ہوتا ہے۔ چناں چہ وہ تو ڈوبتے ہی
ہیں قوم و وطن بھی ان کے ساتھ ہی حتمی برے نتائج کا شکار
ہوجاتے ہیں ”ہم تو ڈوبے ہیں صنم تجھ کو بھی لے ڈوبیں
گے“۔
اس ضروری تمہید
کا دوسرا جزو یہ ہے کہ اسرائیل کی بقا اور عالم عربی میں
موجود قدرتی ذخائر جن میں اب تک کی دریافت کے اعتبار سے تیل
کی دولت سرِفہرست ہے، جو دنیا کی صنعت وتجارت کے لیے شہِ
رگ کا درجہ رکھتا ہے پر قبضہ؛ یہ دونوں مقاصد یورپ اور امریکہ
کے نزدیک ہمیشہ سے اہم رہے ہیں۔
عراق، مصر، شام،
پاکستان، افغانستان کو عالم اسلام و عرب کے مابین یہ امتیاز
حاصل ہے کہ اگر وہاں کی عسکری طاقت کو برگ و بار لانے کا موقع ملے اور
وہاں کے سارے حکمرانوں یا اکثر کی سمتِ سفر کو خدا کی توفیق
سے ”قبلے“ کی طرف ہوجانے کی فرصت ملے، تو یہ ممالک کسی بھی
اسلام مخالف دشمن سے لوہا لے سکتے ہیں؛ کیوں کہ ان میں سے بعض
ممالک کے مسلمان اپنی دینی غیرت میں بڑھے ہوے ہیں،
تو بعض لڑائی بھڑائی کی فطرت اور شجاعت و قوت کی بے پناہ
صلاحیت سے بہرہ ور ہیں، تو بعض کی عددی طاقت بھی
قابلِ لحاظ ہے؛ اِسی لیے یہ ممالک ہمیشہ امریکہ و یورپ
کی نگاہوں میں کھٹکتے رہے ہیں اور انجانا سا خوف اُنھیں
اُن کی طرف سے ستاتا رہا ہے؛ اسی لیے اولاً تو انھیں
مطلوبہ عسکری طاقت ہی بننے نہیں دیتے اوراگر اِس سمت میں
کسی طرح کی پیش قدمی کے ارادے کا اُن کو علم ہوجائے تو
فوراً پیش بندی کردیتے ہیں اوراگر یہ ممالک پیش
بندی کا نوٹس نہ لیں تو ان کی اینٹ سے اینٹ بجادینے
کی سوچتے ہیں۔ جیسا کہ مصر کے ساتھ بار بار ہوا ، پھر
نائن الیون کے بہانے افغانستان کی راہ سے پاکستان کو بھی تباہی
کے راستے پر ڈال دیا گیا اور اس کے تئیں باقی آپریشن
آنے کو ہے۔ عراق کو تباہ کردیاگیا ہے اور اب باقی جو
ممالک ہیں وہ آخری حد تک امریکہ کے ہاتھوں تباہی کو تیار
بیٹھے ہیں!۔
فی الوقت عالمِ
اسلام و عرب کے بڑے بڑے اور خوش نما القاب و اسما والے حکمرانوں میں سے کل یا
اکثر امریکہ کے وفادار غلام ہیں، یا وہ اپنی کرسیوں
کے بچانے اور اپنی عزّت کے ”دردِ تہِ جام“ کو باقی رکھنے کیلئے
امریکہ کی قدم بوسی اور اس کے چشم و ابرو کے اشارے پر چلنے کیلئے
مجبورِ محض ہیں؛ کیوں کہ وہ ”شہ کا مصاحب“ بن کے ہی ”اِتراتے
پھر رہے ہیں“ ورنہ عربی و اسلامی معاشرے میں وہ اتنے بے
آبرو ہیں کہ اگر امریکہ کی غلامی کا طوق اپنی گردن
سے باہر نکال پھینکیں تو وہ اسی آن عرش سے فرش پر آجائیں
گے اور کوئی ان کی ”تعزیت“ کرنے والا بھی نہ ہوگا۔
$ $ $
مرحوم صدام حسین
بھی اِسی سلسلے کی کڑی تھے۔ انھوں نے بعض مرحلوں میں
شعوری اور بعض مرحلوں میں لاشعوری طور پر مشرقِ وسطیٰ
میں امریکی و صہیونی منصوبے کو بھرپور طور پر آگے
بڑھایا اورامریکہ کو پہلے سے زیادہ اور عجلت کے ساتھ خلیج
کے خطّے میں اپنے فوجی ارتکاز، عسکری اڈے کے قیام و
استحکام اور اس کو ہمہ گیر طور پر تہس نہس کردینے کا من چاہا سنہرا
موقع عطا کیا۔
عراق اِیران جنگ
جو عرصہ ۸ سال تک جاری رہی اور دونوں ملکوں کے ۱۵-۱۶ لاکھ کے قریب فوجی و شہری
جاں بہ حق ہوگئے اور اربوں ڈالر مصارف آئے امریکی اسرائیلی
منصوبے کے برپا ہونے کی راہ سے رکاوٹوں کو دور کرنے کی سمت میں
بہت بڑا اور بنیادی قدم تھا۔ امریکہ نے اِس موقع سے نہ
صرف عراق کو؛ بلکہ دگر عربی ملکوں کو بھی ہتھیار کی کھیپ
کی کھیپ دے کر اڑوس پڑوس کے عربی ممالک سے خوب خوب دولت بٹوری؛
کیوں کہ انھیں ایرانی شیعی خطرے پر ”سب سے
بڑا ڈیم“ تعمیر کرنے کا خواب دکھایاگیا اور بتایا گیا
کہ عراق، خلیج کے عربی ملکوں پر ایران کے مُسَلَّط ہوجانے کی
راہ میں درحقیقت سدِّ سکندری ہے، خدا نہ خواستہ اگر یہ سد
ڈھہہ گئی، تو ایران کے سیلِ بلا خیز کو کسی طرح بھی
روکنا ممکن نہ ہوگا!۔
امریکہ نے چوری
چھپے ایران کو بھی ہتھیار سپلائی کیے ؛ تاکہ ایک
طرف اسلحے کی کھپت کے ذریعے اس کی دولت کو اسپینج کی
طرح چوسا جائے، دوسری طرف دونوں کو تادیر لڑتے رہنے اور اپنی
عسکری، مادی اور بشری طاقت کو کم زور سے کم زور تر کرلینے
کا جنون امریکہ واسرائیل کی خواہش کے مطابق اپنا اثر
دکھاسکے۔
ابھی یہ جنگ
ختم نہ ہوئی تھی کہ اور عراقی عوام ابھی اس سے پیدا
شدہ زخمِ جسم و زخم جگر چاٹ ہی رہے تھے کہ امریکہ نے اپنی جواں
سال، فتنہ خیز یہودن دوشیزہ سفیرAPRIL GALASPIE (جس کو کسی
مصلحت کے تئیں ہی عراق میں متعین کیا گیا تھا
اور جس کے تعلق سے ذرائع ابلاغ نے یہ نوٹ کیا تھا کہ اُس وقت صدام حسین
صاحب بہ وقتِ شام
اکثر سفارت خانے کی زیارت اور قتالہ سفیرہ کی ملاقات و
وصال سے بہرہ یاب ہواکرتے تھے) کے ذریعے صدام حسین کو باور کرایا
کہ کویت فلاں خطّے سے جو عراقی سرحد سے ملا ہوا ہے مسلسل عراق کے تیل
کی چوری کا مرتکب ہورہا ہے، اگر عراق اِس حوالے سے کویت سے عسکری
طور پر نمٹتا ہے، تو امریکہ کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا؛ کیوں
کہ یہ عراق اور کویت کا معاملہ اور تمام تر عربوں کی داخلی
کشاکش ہوگی۔ عراق نے کویت پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا اوراس
چھوٹے سے خود مختار عربی ملک کو اپنی ریاست کا ایک صوبہ
قرار دے کر وہاں سے کسی طرح بھی باہر نہ ہونے کا فیصلہ کرلیا۔
مسلم اور عربی ملکوں، نام نہاد اقوام متحدہ اور دگر عالمی اداروں نے
صدام کو بہتیرا سمجھایا کہ بھئی ! تم کویت چھوڑ دو؛ لیکن
وہ ٹس سے مس نہ ہوے۔ امریکہ نے سارے عربی ملکوں کو عموماً اور
سعودی عرب کو خصوصاً یہ باور کرایا کہ عراق اپنی ”بھیانک“
حربی طاقت کے ذریعے، یکے بعد دیگرے سارے عربی ملکوں
پر حملے اور قبضے کی سوچ رہا ہے۔ چناں چہ خطّے کے سارے ملکوں نے امریکہ
کو اپنے ہاں اپنی فوج اتارنے اور خلیج کے خطے میں عسکری
ارتکاز کی نہ صرف بہ خوشی اجازت دے دی بلکہ اچھل اچھل کے انتہائی
بے تابی کے ساتھ اس کی پیش کش کی۔ اس سے امریکہ
کو اپنی من چاہی مراد مل گئی۔ اس نے پوری دنیا
میں اپنے طاقت ور یہودی ذرائع ابلاغ کے ذریعے شب و روز
شور مچایا کہ صدام کویت پر قبضہ کرکے اب سارے عربی ملکوں پر
قبضے کے لیے پر تول رہا ہے۔ چناں چہ وہ ۳۰ ملکوں کی نام نہاد افواج اور
دراصل اپنی صلیبی وصہیونی افواج کو اس خطہٴ
عرب میں اتارلیا جس کو کافروں سے بالیقین ہمیشہ پاک
رہنا چاہیے۔
عصرِ حاضر میں یہ
پہلا موقع تھا کہ ایک عربی ملک پر ایک پڑوسی عربی
ملک نے حملہ و قبضہ کرکے، عربوں کی صفوں میں ایسی گہری
خلیج پیدا کردی تھی جس کو پاٹنا خارج از امکان بن گیا
تھا۔ ہماری اِن آنکھوں نے زمانے کی یہ نیرنگی
بھی دیکھی کہ ایک مسلم عربی ملک کو ایک مسلم
عربی ملک سے آزاد کرانے کے لیے صلیبی و صہیونی
اتحاد سرگرمِ کار ہوا اور امریکہ نے ہمیشہ کے لیے اِس خطے میں
اپنے زبردست فوجی جماؤ اور عسکری اڈوں کی راہ ہموار کرلی۔
کویت کوآزاد کرانے کے بہانے عربوں کو صلیبی وصہیونی
طاقت کا ہمیشہ کے لیے غلام بنالیا گیا۔ ۲۸/ فروری ۱۹۹۱/
کو
جب امریکہ نے عراق کے خلاف اپنی فوجی کارروائی موقوف کی،
تو نہ صرف یہ کہ عراق کے ۲۵ ہزار فوجی و شہری ہلاک
اور ۷۵ ہزار فوجی و شہری زخمی
ہوچکے تھے؛ بلکہ عراق کی عسکری طاقت چورہ چورہ ہوچکی تھی
اور معاشی طور پر وہ قلاش ہوچکا تھا۔
یہ پہلا موقع تھا
کہ صدام حسین سارے عربوں سے کٹ گئے اور سارے عرب اُن سے بالکل برگشتہ ہوگئے،
اِس وقت مسلمانوں کے درمیان بش کی جو شبیہ ہے غالبا اِسی
طرح کی شبیہ صدام کی عربوں اور مسلمانوں کے بہت بڑے طبقے کے درمیان
بن گئی تھی۔ اِس موقع سے صدام کے خلاف ہزاروں صفحات لکھے گئے،
ان کے محرومیوں سے بھرپور بچپن، بے سمت نوجوانی،اور خون کی رسیا
جوانی اور ہم عصروں و رفقاے کار کے خلاف بڑے سے بڑے اور بُرے سے بُرے
اقدامات کے ذریعے اقتدار پر قابض ہوجانے میں اُن کی فن کاری
وغیرہ پر سیکڑوں کتابیں چھپیں اور بہت بکیں۔
صدام نے کویت کی
بہ جائے اگر سنجیدگی سے اسرائیل سے بھرپور پنجہ آزمائی نہ
سہی دوچار میزائلس صہیونی ریاست کی طرف داغ دیتے
(جس کے متعلق ہمیشہ ان کے بڑے بڑے معاندانہ بول سے، دنیا کے مسلمان
عموماً اور اسلام پسند خصوصاً بہت خوش ہوتے رہے تھے اور اُن سے اسرائیل سے
نمٹنے کے تئیں بڑی بڑی امیدیں لگائے رہتے تھے) تو
وہ دنیا میں پوجے جانے والے مسلم حکم راں بن جاتے اور امتِ مسلمہ یہ
سمجھتی کہ واقعی عراق کی عسکری تیاری اپنے
مصرف میں ٹھکانے لگی؛ لیکن انھوں نے امریکہ کے جھانسے میں
آکر کویت پر حملہ و قبضہ کرکے اور ساتھ ہی متعدد عربی ملکوں کو
بے وجہ دھمکی دے کر، اپنی بدقسمتی پر ہمیشہ کے لیے
مہر لگادی اور قوم و وطن اور پوری امتِ مسلمہ اور بالخصوص عربوں کو
امریکہ اور اسرائیل کے قدموں میں اِس طرح ڈال دیا کہ اب
بہ ظاہر بہت دنوں تک دور دور تک ان کے پنجہٴ استبداد سے نکلنے کی کوئی
سبیل نظر نہیں آتی؛ بلکہ غلامی کے نہ معلوم کتنے طوق کس
کس مسلم و عربی ملک کی گردن میں کب کب ڈالنے کا پلان ہے، اس کا
علم صرف خدائے علیم ہی کو ہے۔
امریکہ نے اب کی
بار صدام حسین کو اپنے لیے ”ہنرمندی“ سے مکمل طور پر اِس طرح
استعمال کرلیا کہ ایک تیر سے اس نے لاتعداد شکار کرلیے
اور عربوں کے بحروبر اور جسم دونوں سے تیل نکالنے کی ایسی
راہ پیدا کرلی، جو اَب کبھی ناہموار ہونے والی نہ تھی،
یہاں سے صدام حسین میں امریکہ کے تئیں پائے دار
عداوت، بغض وعناد کا ایسا جذبہٴ بے کراں بیدار ہوا جو شہادت تک
اُن کا ہم راہی رہا۔ امریکہ نے صرف اسی پر بس نہیں
کیا؛ بلکہ نام نہاد سلامتی کونسل کے ذریعے عراق پر زبردست
اقتصادی پابندی عائد کردی جو ۱۲/ سال تک جاری رہی، جس سے
عراق عسکری طاقت کی مسماری کی رہی سہی کسربھی
پوری ہوگئی اور اقتصادی طور پر وہ بالکل دیوالیہ بن
گیا۔ اس دوران کم وبیش دس لاکھ عراقی بچے غذائی قلت
اور دواؤں کی نایابی کی وجہ سے دم توڑ گئے۔
اس کے بعد امریکہ
نے عراقی اسلحے کی تفتیش کا ایسا دراز نفس ڈرامہ اسٹیج
کیا کہ دنیا والے اس کو دیکھ دیکھ کر اوبھ گئے۔ جب یقین
ہوگیا کہ عراق کے پاس مزاحمت کی کوئی عسکری طاقت نہیں
تو اس نے نائن اِلیوین کے پس منظر میں، اس پر یہ کہہ کر
حملہ کردیا کہ اس کے پاس وسیع تر تباہی کے بے شمار ہتھیار
ہیں۔ اس جنگ کی اقوام متحدہ، سارے عالمی اداروں اور دو ایک
کو چھوڑ کے دنیا کے سارے ملکوں نے مخالفت کی؛ لیکن جونیئر
بش کو اپنے والد سینئربش کاصدام سے انتقام لینا تھا؛ کیوں کہ
صدام نے بغداد کے رشید ہوٹل کی دہلیز میں سینئربش کی
شبیہ فرش پر بنوادی تھی؛ تاکہ سارے آنے جانے والوں کے پاؤں اس
پر ضرور پڑیں، سو بش نے بالآخر یہ انتقام لے ہی لیا۔
صدام حسین کے لیے
اس آخری خلیجی جنگ میں (جو اُن کے اوراُن کے ملک و قوم کے
خلاف لڑی گئی اور لڑی جارہی ہے اور جو ۲۰/مارچ ۲۰۰۳/
کو
شروع کی گئی اور یکم مئی ۲۰۰۳/
کو
جونیئربش نے جنگ کے ”خاتمے“ کا اعلان تو کردیا؛ لیکن آج بہ وقت
تحریر شنبہ : ۳/فروری ۲۰۰۴/
= ۱۴/محرم ۱۴۲۸ھ بھی امریکہ کی دم
تباہ شدہ عراق کی پھٹن سے تمام کوششوں کے باوجود نہیں نکل سکی
ہے) اِس کے سوا کوئی چارئہ کار نہ تھا کہ مسلسل جنگ اور عالمی پابندیوں
کی وجہ سے عسکری طور پر مفلوج ہوجانے کو دیکھتے ہوے وہ امریکہ
کی ساری ظالمانہ اور ذلت آمیز شرطوں کو مان کر سپرانداز ہوجاتے یا
پھر مقابلہ کی طاقت سے تہی مایہ ہونے کے باوجود اپنا بھرم باقی
رکھنے اور اپنی جھینپ مٹانے کے لیے اپنی ضد پر قائم رہتے
اورامریکہ سے دو دوہاتھ کرنے کو، اپنے محلات کی جنت میں انتظار
کرتے رہتے۔ انھوں نے اپنے فطری سرپھرے پن کی وجہ سے (جس کی
وجہ سے زندگی میں بڑی بڑی خطرناکیوں، ناانصافیوں،
جارحیتوں اورمنطقی نتائج نیز ناگہانی مصائب کو دعوت دی
اور پھرانھیں جھیلا اور اپنی ذاتی وصفاتی و قومی
توانائیوں کا زیادہ تر اور بہتر حصہ ان سے نمٹنے میں ہی
صرف کردیا) دوسری ترجیح کو ہی اپنے نصیبے کے آخری
انجام تک پہنچنے کے لیے منتخب کیا۔ اور دنیا والوں کی
توقع کے مطابق وہی کچھ ہوا جو ہونا تھا۔ ہمارے بہت سے خوش فکر مسلمان،
جو ہمارے حکمرانوں کے تئیں عموماً سچائیاں نہیں جانتے، صدام حسین
اوراُن کی افواج کی طرف سے، خدا کے حکم سے اورانبیا کے سچے
ماننے والوں کے تعلق سے، خدا کے وعدے کے بہ موجب، ”معجزات“ کے ظہور کا بے چینی
سے انتظار کرتے رہے کہ عراقی افواج نے اب امریکہ کو کچل دیا اور
تب اور بش کی کافر و فاجر افواج عراق کے صحرا کا اب پیوند بنی
اورتب۔ دوسری طرف خدا کی مشیّت اور زمینی حقیقت
اِس شکل میں سامنے آئی کہ صلیبی وصہیونی امریکی
و برطانوی افواج نے سارے عراق بالخصوص بغداد کے چپے چپے پر خطرناک بموں کی
موسلادھار بارش (جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے) کرکے،آخری حد تک اس کو
تباہ کردیا اورانسانی لاشوں کی ”زرخیز“ فصل کاٹ کر، صرف ۴۲ دنوں میں، عراق کو غلام بنالیا۔
امریکہ کی اِس جارحیت میں
دنیا کے اکثر ملکوں نے نہ صرف یہ کہ اس کا ساتھ نہیں دیا؛
بلکہ اسکے خلاف بڑے بڑے عالم گیر اور بے نظیر مظاہرے ہوے؛ لیکن
حیرت کی بات ہے کہ چکنے چپڑے عربی نام والے عرب اور مسلم
حکمرانوں نے نہ صرف چپ سادھے رکھا؛ بلکہ درپردہ اور کھل کر امریکہ کا ساتھ دیا
اور کئی ایک نے اپنے ہاں سے برادر عربی ملک عراق کے خلاف ہر طرح
کی عسکری کارروائی کو بہ خوشی قبول کیا، جس کے بغیر
امریکہ کے لیے عراق کے خلاف کارروائی ممکن نہ تھی۔
دوسری طرف بش نے
عراق کے حوالے سے جو حسین خواب دیکھا تھا کہ وہ ترنوالہ ثابت ہوگا، وہ
مزاحمت کاروں کی ناقابلِ تصور مزاحمت کی وجہ سے شرمندئہ تعبیر
نہ ہوسکا نہ آیندہ اِن شاء اللہ ہونے کو ہے۔ امریکہ نے عراق پر
حملے کے بار بار وجوہِ جواز بدلے، دنیا والے بش کے جھوٹ، فریب، ضد،
خونِ مسلم کی عجب سی ان کی لت سے بری طرح اکتاچکے ہیں
اور خود امریکہ والے بہت سے لوگ ان کا منھ نوچنے کو تیار ہیں۔
امریکہ نے عراق میں صہیونی کارندوں کو کھُل کھیلنے
کا موقع دے رکھا ہے، ان کے محبوب مشغلوں میں یہ بھی ہے کہ یہاں
کے مسلمانوں کے عقیدئہ وثقافت کو تہس نہس کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں شیعہ
سنی جھگڑے کو خوب خوب بڑھاوا دیا جائے،نیز کردوں اورمختلف نسلی
و قبائلی گروہوں کی عصبیت کو ہوا دی جائے؛ تاکہ عراق کا تیا
پانچہ کرکے اس کے فرزندوں کے عسکری اور حربی بھرم کو ختم کردیا
جائے اور اسرائیل کے لیے اب یہ کبھی خطرہ نہ بن
سکے۔ بش کے ذریعے فتح کے اعلان کے بعد سے اب تک ۶-۷ لاکھ عراقیوں کو (جن میں
اکثریت سنیوں کی ہے) موت کے گھاٹ اتارا جاچکا ہے،امریکہ
نے وہاں ظلم و بربریت اور قتلِ عام کا طوفان برپا کررکھا ہے، جیلوں کو
عقوبت خانہ بنارکھا ہے، عراقیوں کی عزت و آبرو کو پامال کرنا امریکیوں
کے نزدیک غالباً ان کے رب کی رضا جوئی کا بہترین ذریعہ
ہے، جان و مال کا اِس بے دردی سے ضیاع، اتنے دنوں تک اور اس پیمانے
پر، عالم نے کیوں دیکھا ہوگا؟۔
$ $ $
دوسری طرف ۲۲/جولائی ۲۰۰۳/
کو
امریکی فوج نے عراق کے شہر ”موصل“ میں ایک زبردست حملے میں
صدام حسین کے دونوں بیٹوں: ”عدی“ اور ”قصی“ کو قتل کردیا۔
صدام حسین تو سقوطِ بغداد کے بعد ہی روپوش ہوگئے اور اُن کے تعلق سے
بھانت بھانت کی خبریں گشت کرتی رہیں، تا آں کہ ۱۴/دسمبر ۲۰۰۳/
کو
امریکی فوجیوں کے ذریعے اُن کے پکڑے جانے کا اعلان کیاگیا۔
۱۹/ اکتوبر ۲۰۰۵/
کو
”دجیل“ میں ۱۴۸ شیعوں کے قتل کے الزام میں
صدام پرمقدمہ شروع کیاگیا۔ ۵/نومبر ۲۰۰۶/
کو
دجیل قتل کا انھیں ملزم ٹھہراتے ہوے بغداد کی عدالت نے اُن کو
پھانسی کی سزا سنائی۔ وکلا کے مشورے سے اُنھوں نے سزا کے
خلاف اپیل دائر کی؛ لیکن ملک کی کریمنل عدالتِ علیا
نے ۲۶/دسمبر ۲۰۰۶/
(سہ
شنبہ ۴/ذی الحجہ بہ تقویم ہندوستان ۱۴۲۷ھ) کو ان کی اپیل کو مسترد
کرتے ہوئے پھانسی کے ذریعے انھیں مارڈالنے کی سزا کو
برقرار رکھا اور بالآخر بہ عجلت تمام انھیں جمعہ شنبہ: ۲۹-۳۰
/دسمبر
کی درمیانی شب میں صبح صادق سے ذرا پہلے تختہٴ دار
پر چڑھا دیاگیا۔ عالمِ عربی کی جنتری کے حساب
سے اس دن ۱۰/ ذی الحجہ ۱۴۲۷ھ کی تاریخ تھی۔
دنیا کے لاکھوں مسلمان شعائرِ حج کی ادایگی میں
مشغول تھے اور ساری دنیا کے مسلمان عیدالاضحی کی
نماز اور سنتِ ابراہیمی کو بجا لانے کے لیے مصروفِ کار تھے کہ
اُنھیں یہ اندوہناک خبرملی کہ صدام حسین کو شہید
کردیاگیا، تو ہر ایک کو یسا لگا کہ صدام حسین کو
بالیقین ظالمانہ طور پر قتل کیاگیا ہے۔ کروڑوں
مسلمانوں نے انھیں دعا دی اور کٹھ پتلی عراقی حکومت کے
اہل کاروں اور امریکہ کے بش پر دل کی گہرائیوں سے آبدیدگی
کے ساتھ لعنت کی اور بددعا دی۔
ذرائع ابلاغ میں
دوسرے دن خبر آئی کہ صدام کو پھانسی دینے میں شیعی
رہنما مقتدی صدر اور ان کے حامی بھی شریک تھے، پھانسی
کے تختے پر چڑھاتے وقت صدام سے بدزبانی بھی کی گئی اور
عار دلاکر اُن کا دل دکھایا گیا، پھانسی کے بعد ان کی لاش
کے ساتھ بے حرمتی کی گئی جس کی غمازی اخبارات میں
چھپی تصویر سے بہ خوبی ہوتی تھی۔
صدام حسین پر
مقدمہ کی کارروائی تمام تر غیرمنصفانہ تھی، ان کے ۳ وکلا اور ججوں کو صرف اس جرم میں
ماردیاگیا کہ وہ صدام کی وکالت کیوں کررہے ہیں۔
اُن کے آخری جج کو بھی زبردستی اور بے وجہ تبدیل کردیاگیا؛
تاکہ فیصلہ حسبِ منشا صادر ہو۔ پھر ان کو جس طرح عیدالاضحی
کے دن صبح سویرے پھانسی دی گئی، یہ اقدام انتہائی
افسوسناک اور بدبختانہ تھا اوراس کا مقصد صرف دنیا کے مسلمانوں کا منھ
چڑھانا تھا اور یہ بتانا تھا کہ اے مسلمانو! ہم تمھارے دینی تیوہاروں،
مذہبی تقریبات اور شعائر کی کوئی پروا نہیں کرتے
اور تمھیں ہم جب اور جس طرح چاہیں ذلیل کرسکتے ہیں۔
صدام حسین کو پہلی
مرتبہ جو محبوبیت ملی، دعاؤں کا ہدیہ ملا، نیک نامی
کی سوغات ملی؛ وہ انھیں زندگی میں کبھی نہ ملی
تھی۔ کیا عجب ہے کہ خدائے بے نیاز نے اس طرح اُن کے لیے
مغفرت کی کوئی راہ پیدا کردی ہو اور ان کے گناہوں کو معاف
کردینے کا بہانہ نکال لیاہو ۔ اس کریم کے ہاں بخشش کے لیے
بہانہ چاہیے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے امام ترمذی نے جو حدیث
قدسی نقل کی ہے اور جس کو امام صاحب نے ”حدیث حسن صحیح“
قرار دیا ہے،اس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اگر بندے
کا گناہ اتناہوکہ اس سے زمین و آسمان کی پوری فضا بھرجائے اور روے
زمین کا احاطہ کرلے تب بھی وہ غفور رحیم بخش دے گا بشرطے کہ وہ
اس سے سچے دل سے مغفرت کا طالب ہو اور اپنے کیے پر پشیمان ہو۔
صدام حسین کا آخری
وقت اور صحیح علم تو خدا ہی کو ہے بہت اچھا گزرا، اُن کے رویّے
سے محسوس ہوتا تھا کہ انھوں نے اپنے رب سے صدقِ دل سے معافی چاہی
ہے۔ وہ تختہٴ دار پر جاتے وقت دائیں ہاتھ میں قرآن پاک لیے
ہوے تھے، جو انھوں نے اپنے گلے میں پھندا ڈالے جانے کے وقت جلادوں کو یہ
کہہ کر دے دیا کہ فلاں صاحب کو یہ قرآنِ پاک دے دیا جائے، تختہٴ
دار پر لائے جانے سے قبل جب ان کو اہل کاروں نے جیل میں کہا کہ اب آپ
کو پھانسی پر لٹکایا جائے گا آپ تیار ہوجائیں، تو انھوں
نے غسل کیا، نماز پڑھی، قرآنِ پاک کی تلاوت کی، تب وہ
متعلقہ اہل کاروں کی گاڑی پر سوار کرائے گئے اور کال کوٹھری تک
لائے گئے۔ تختہٴ دار پر چڑھتے وقت وہ پرسکون رہے، کسی گھبراہٹ
اور خوف کا اظہار اُن کے کسی برتاؤ سے نہیں ہوا، یہ بہت بڑی
بات ہے؛ اسی لیے سارے ذرائع ابلاغ نے اس کو نہ صرف ریکارڈ کیا؛
بلکہ بار بار اس کو مشتہر کیا: پھندہ کسے جانے سے قبل انھوں نے تین
مرتبہ اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر کہا اور پھر ان کے پاؤں کے نیچے سے
تختہ ہٹادیاگیا اور پھانسی کا عمل تمام ہوتے ہی وہ ابدی
نیند سوگئے۔
صدام حسین نے یقینا
جبر و استبداد کے ساتھ حکومت کی، قوم وامت کو شدید نقصان پہنچایا،
بھیانک جرائم کا ارتکاب کیا،ملت کے لیے لاتعداد تباہیوں
کا ذریعہ بنے، اپنی رعایا کو مجموعی طور پر ناخوش رکھا،
عدل انصاف کے اپنے تراشیدہ پیمانے پر ہی عمل کیا۔
اسرائیل اورامریکہ کو صرف دھونس دھمکی دی اور جب وہ اس
قابل تھے کہ دونوں میں سے کسی کو کوئی کانٹا چبھا سکتے تھے، تو
اپنے ابناے مذہب و ثقافت و تاریخ یعنی عربوں کے ایک ملک
پر حملہ و قبضہ کے ذریعے، دنیا کے بیش تر مسلمانوں کو اپنا حریف
بنالیا۔
جب پھانسی دی
گئی تو شیعے (جو اُن سے بہ طور خاص اِس لیے پرخاش رکھتے تھے کہ
وہ سنّی تھے) اور وہ سنی عرب بھی یقینا خوش ہوے ہوں
گے جنھیں اُن کے طرزِ حکمرانی نیز کویت پر حملے اور قبضے
سے ہمہ گیر اذیت ہوئی تھی اور سب سے زیادہ خوشی
امریکہ کے بدنامِ زمانہ صدر بش اور اُن کے صلیبی وصہیونی
ہم خیالوں کو ہوئی کہ اُنھیں یہ محسوس ہوا کہ انھوں نے
عراق میں اپنی ناکامیوں کو یکلخت کامیابیوں میں
تبدیل کرلیا ہے؛ لیکن اُنھیں جلدہی یہ محسوس
ہوگیا کہ اُن کا خواب ابھی بھی شرمندئہ تعبیر ہونے کے قریب
بھی نہیں۔
صدام حسین کی
پھانسی سے سب سے بڑا سبق جیسا کہ دنیا کے اکثر صحافیوں،
قلم کاروں اور دانش وروں نے کہا ہے ان عربی اور مسلمان حکمرانوں کو لینا
چاہیے جو اِس وقت امریکہ کے ایجنٹ بنے ہوے ہیں اور صہیونی
و صلیبی منصوبوں کی تکمیل کا نہ صرف ذریعہ بنے ہوے
ہیں؛ بلکہ تکمیل کی راہ کی ساری رکاوٹوں کو ایک
ایک کرکے ہٹانے میں جٹے ہوے ہیں اور ”گلیمِ بوذر و دلقِ
اویس و چادرِ زہرا“ کو بیچ کھانے کے جذبہٴ بے پناہ سے اِس طرح
سرشار ہیں کہ لگتا ہے کہ اپنی کھالوں میں نہیں سمارہے ہیں۔
یہ وقت ان کے اِس سچائی پر غور کرنے کا ہے کہ وہ صدام سے زیادہ
”ناسمجھ“ ”سرپھرے“ اپنے پاؤں پر آپ کلھاڑی چلانے والے نہیں
ہوسکتے۔ امریکہ نے صدام حسین کے اِن ”اوصاف“ سے بھرپور طور پر
فائدہ اٹھایا؛ لیکن جب اس نے محسوس کیا کہ صدام حسین اب
سرتابی دکھارہا ہے اور اس کے صلیبی و صہیونی منصوبے
کو اپنے آخری انجام تک پہنچانے میں اس کا ساتھ نہیں دے رہا؛
بلکہ اب خطرہ ہے کہ وہ بہت سے راز ہائے سربستہ سے پردہ نہ اٹھا دے، جس کی
وجہ سے امریکہ کی جگ ہنسائی ہو اور اقوامِ عالم کو اُس کے
استعماری عزائم کے تانے بانے کی جان کاری ہو جائے، تو صدام حسین
کے ملک، ان کی قوم، ان کی طاقت اور بالآخر ان کی ذات کو بہ عجلت
تمام ٹھکانے لگادیا گیا۔
پکڑے جانے کے بعد صدام
عرصہٴ تک زندہ رہے،کسی کو یہ خیال ہوسکتا ہے کہ انھوں نے
”ہنی مون“ والے امریکی دنوں کے راز و نیاز کی بات
کو واشگاف کیوں نہیں کیا؟ تو یہ عرض ہے کہ وہ تمام تر امریکی
گرفت میں تھے، کیا پتہ اُن کے دماغ ودل کو سائنس کی ترقی
کے اِس دور میں کس طرح استعمال کیاگیا، کیا عجب ہے کہ انھیں
وہی بولنے دیاگیا جو امریکہ بلوانا چاہتا تھا، ان سے وہی
کچھ کہلوایا گیا جس سے امریکہ کو سبکی نہ ہو۔ آج کل
دل اور دماغ پر قریب اور دور سے دواؤں اورآلات کے ذریعے اِس طرح
کنٹرول کیا جاسکتا ہے کہ بڑے سے بڑے روایتی جادوگر بھی
ششدر رہ جائیں گے۔ روے زمین پر اسرائیل اورامریکا
سے بڑا شیطان اِس وقت غالباً خود اصل شیطان بھی نہ ہو؛ کیوں
کہ گروگڑ ہی رہ جاتا ہے اور چیلا عموماً شکر بن جاتا ہے۔
بالیقین
صدام گنہ گار تھے؛ انھوں نے ہمالیائی جرائم کیے؛ انھوں نے سنگ
دلی، تشدّد، سخت گیری، جبر واِکراہ اور استبداد کی بہت بری
سطح پر اُتر کر حکومت کی؛ حکمرانی کے پورے دورانیے میں
دوست سے زیادہ دشمن کو جنم دیے؛ ساتھ ہی کچھ اچھے کام بھی
کیے،جواُن کی برائیوں کے نیچے دب گئے۔یقینا
اُن کا محاسبہ ہونا چاہیے تھا اور سزا بھی ملنی چاہیے تھی؛
لیکن یہ دونوں کام کسی امریکہ، کسی اسرائیل،
ان کے کارندوں اور ان کے غلامانِ باوفا کا نہیں تھا۔ یہ کام خود
اُن کی آزاد قوم، آزاد ملک اور امتِ عربیہ کا تھا کہ وہ بہ وقتِ تقاضا
اُن کا محاسبہ کرتی اور مناسب سزا تجویز کرتی۔ سات سمندر
پار سے، بغیر بلائے، طاقت کے زور پر، کسی ملک پر قبضہ کرکے، اس کے حکم
راں کو پھانسی پر چڑھانے کی جو طرح بش اور اُن کے ہم نواؤں نے ڈالی
ہے، تو کیا خود اِسی کی رو سے بش صاحب نے مسلمانوں اور عربوں کے
لیے طاقت ور ہوجانے کے بعد،اس بات کا جواز نہیں پیداکردیا
ہے کہ وہ اُن کے ملک پر اِسی طرح حملہ اور قبضہ کرکے اُن کو تختہٴ دار
پر چڑھا دیں۔ یا اِس وقت جو ملک امریکہ سے ٹکر لے سکتے ہیں،
اگر وہ سنجیدہ ہوجائیں اور بش کے ملک پر حملہ کرکے انھیں پکڑکے
صدام سے بھی زیادہ برے انداز میں انھیں جہنم رسید
کردیں، تو خود اُن کے رویّے کی روشنی میں انھیں
یا اُن کے باپ کو یا اُن کے شرارت پیشہ ٹولے کو اعتراض کرنے کا
کوئی حق ہوسکتا ہے۔ بش نے انتہائی خطرناک راہ اختیار کی
ہوئی ہے، دنیا والے اُن کے خلاف شورتو مچاتے ہیں؛ لیکن
کوئی بڑی طاقت اُن کا گریبان پکڑکے اُن کو راہ راست پر لانے کو
تیار نہیں ہوتی۔
عالمی برادری
کے نفاق، دوہرے پیمانے پر عمل آوری، تفریق کی سیاست،مسلمانوں
اور غیرمسلموں کے درمیان الگ الگ طرز عمل اور ظلم کو صرف ایک حد
تک ظلم کہنے اور ظلم کے سرچڑھ جانے کے بعد اس کو ”انصاف“ کا نام دے دینے کے
سلوک سے؛ امتِ مسلمہ کا غصّہ دیدنی بن گیا ہے۔ دہشت گردی
کے جس بھوت کو مارنے کے لیے بش اور اُن کے ناپاک ٹولے نے انجانے سمتوں میں
رتوندی والے اونٹ کی طرح ٹامک ٹوئیے مارتے رہنے کا رویّہ
اپنایا ہوا ہے، تو یہ معرکہ امریکہ اور عالمی برادری
کے مذکورہ منافقانہ اور متضاد طرز عمل کی وجہ سے کسی طرح بھی سر
نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ
امریکہ اور دنیا کے وہ ممالک جو امریکہ کی روش میں
کسی نہ کسی طرح قولاً یا فعلاً اس کی ہاں میں ہاں
ملاتے ہیں، وہ اِس وقت جتنے غیر محفوظ ہوگئے ہیں، اتنے غیرمحفوظ
وہ کبھی نہ تھے۔
عالمی برادری
اور بہ طورِ خاص امریکہ اپنی موجودہ روش پر قائم رہ کر کسی فوت
شدہ مقصد کو حاصل کرسکتا ہے نہ کسی مطلوبہ امن و سکون سے بہرہ یاب
ہوسکتا ہے۔ ظلم کی راہ ہمیشہ بڑی کٹھن رہی ہے، ہے
اور رہے گی۔ امریکہ اِس ڈگر کو جتنی جلدی چھوڑ دے،
اُسی قدر اُس کے حق میں بھلا ہوگا اور دنیاوالوں کو بھی
سکون کی سانس لینے کا موقع ملے گا۔
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ3، جلد: 91 ، صفر 1428 ہجری مطابق مارچ2007ء